پشاور یونیورسٹی میں "رحمان بابا، خوشحال خان اور علامہ اقبال: نوجوان نسل کے لیے چند اسباق" پر خصوصی لیکچر
(بیورو چیف راشد گورائیہ) پشتو اکیڈمی، پشاور یونیورسٹی میں
"رحمان بابا، خوشحال خان اور علامہ اقبال: نوجوان نسل کے لیے چند اسباق" کے موضوع پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں چئیر مین مسلم انسٹیٹیوٹ دیوان آف جونا گڑھ اسٹیٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے خصوصی لیکچر کے دوران فرمایا کہ
- موجودہ دور میں آگے بڑھنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ناگزیر ہے۔ بالکل اسی طرح یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ ہم اپنے ثقافتی ورثے، زبان اور تہذیب کے تحفظ پر بھی بھرپور توجہ دیں-
- زبان و ثقافت کسی بھی قوم کی شناخت کا تعین کرتی ہے۔ نوآبادیاتی دور میں ہمارے ثقافتی ورثے کے حوالے سے لوگوں میں احساسِ کمتری کو جنم دیا گیا- آج لازم ہے کہ ہم اپنی ثقافت اور تہذیب وتمدن کا تحفظ اور دفاع یقینی بنائیں۔ ہمارے قومی تشخص اور وقار کی حفاظت کا یہی راستہ ہے۔
- پشتون قبائل نے نوآبادیاتی دور میں مسلم شاہی ریاستوں کی تشکیل اور حفاظت میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح ترک اور افغان محققین نے فروغِ ادب اور ہمارے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان محققین نے نہ صرف موجود زبانوں کو تقویت بخشی بلکہ نئی زبان (اُردو) کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا جو انسانی تہذیب کیلئے ایک بہت بڑی خدمت ہے۔
- اقبال کے بہت سے افکار و نظریات قبائلی ثقافت و اقدار سے متاثر ہیں۔ اقبال کی نظم ’’محراب گُل افغان کے افکار‘‘ جس میں اقبال نے شناخت پر بہت زور دیا ہے، ہماری نوجوان نسل کو پڑھائی جانی چاہیے-
لیکچر کے اختتام پر مسلم انسٹی ٹیوٹ اور پشتو اکیڈمی کے درمیان مفاہمتی یادداشت (MOU) پر دستخط کیے گئے جس کا مقصد علمی و تحقیقی میدان میں تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔ یونیورسٹی میں لیکچر کا انعقاد اور مفاہمتی یادداشت پر دستخط وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم قاضی اور ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی ڈاکٹر فرخندہ حیات کے زیرِ نگرانی ترتیب پائے۔
No comments: