اٹھو کہ عزم اتحاد کریں: اطہر سلطان مغل

 کالم


اٹھو کہ عزم اتحاد کریں


قارئین کرام ! دسمبر کا ہم مہینہ ہمیشہ سے ہر حساس اور درد مند دل کے لیے اداسی کا سبب بنتا رہا ہے ۔ خاص طور پر پاکستان کی عوام کو اس مہینے دو بڑے سانحات کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے قومی تاریخ کا رخ ہی تبدیل کر دیا ۔ پہلا سانحہ 16 دسمبر 1971 کو پیش آیا جب اپنوں کی بے وفائی ، مفاد پرستی اور اقتدار کے لالچ و حرص کے باعث مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا  اور قائد کے پاکستان کے محض 24 سال بعد دو ٹکڑے ہو گئے ۔ 

اس گناہ میں دشمن نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور ہماری صفوں میں چھپے آستین کے سانپوں کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کے قیام کو یقینی بنایا ۔ 53 سال گزرنے کے باوجود ہم اس غم کو ابھی تک نہیں بھولے اور شاید کبھی نہ بھول پائیں ۔ 16 دسمبر 2014 کا دن بھی پاکستان کی قومی تاریخ کا دوسرا سیاہ ترین دن تھا جب ملک دشمن دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور پہ حملہ کر دیا۔ اس وحشیانہ حملے میں 132 معصوم طلبہ و طالبات سمیت 147 افراد نے جام شہادت نوش کیا ۔ شہداء میں پرنسپل طاہرہ قاضی  سمیت ٹیچرز بھی شامل تھے اور عملے کے اراکین بھی شامل تھے ۔ 

درجنوں افراد زخمی ہوئے جو صحت یاب تو ہو چکے ہیں لیکن ان کے ذہنوں پر آج بھی اس دردناک واقعے کے تمام سیاہ مناظر نقش ہیں ۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز نے سکول میں داخل ہو کر حملہ آوروں کے خلاف کاروائی شروع کر دی اور ایک طویل اپریشن کے بعد تمام چھ حملہ آور مار دیے گئے ۔ اس سانحے کا سب سے دردناک اور اشکبار پہلو یہ تھا اس میں ایک ایسی بچی کو شہید کیا گیا جس کی عمر محض چھ سال اور آٹھ ماہ تھی ۔ خولہ نام کی بچی اس دن ایڈمشن کے لیے سکول آئی تھی اور وہ ننھی کلی  بھی اس حملے میں شہید ہو گئی ۔ اس دردناک واقعے کی خبر ٹیلی ویژن پر چلتے ہی پورے ملک بلکہ پوری دنیا گہرے صدمے کی کیفیت میں گھر گئی ۔ قومی اور عالمی میڈیا نے اپنے تمام جاری پروگرام روک کر اس واقعے کو طویل دورانئے تک ٹیلی کاسٹ کیا اور اپنے ناظرین کو لمحہ بہ لمحہ  صورتحال سے ادا کیا ۔ 

ظالموں نے چنگیزی سفاکیت کا مظاہرہ کیا اور نہتے طالب علموں اور ٹیچرز پر گولیوں کی  بوچھاڑ کر دی ۔ 147 افراد کی شہادت نے پورے ملک کو رنج اور سوگ کی کیفیت میں مبتلا کردیا۔  اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف اور صدر ممنون حسین نے فوری طور پر اس بدترین واقعے کے مذمت کی اور قوم سے عہد کیا کہ حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ اس واقعے کی خبر عام ہوتے ہی طلبہ و طالبات کی مائیں اور والد سمیت دیگر رشتہ دار  دیوانہ وار سکول کی طرف بھاگے  تاکہ اپنے پھولوں جیسے جگر گوشوں کی خبر لے سکیں لیکن افسوس بہت سی ماؤں کے پھول سکول سے سیدھے جنت کو چلے گئے ۔ قارئین ! یہ ایسا زخم ہے جو آج بھی ہمارے قومی وجود سے رس رہا ہے اور شاید ہمیشہ رستا رہے گا ۔ آج اس واقعے کو دس سال مکمل ہو گئے ہیں ۔ اسی طرح سالوں پر سال گزرتے رہیں گے اور شہداء کی برسیاں منائی جاتی رہیں گی ۔ ان کے یادگاروں پر پھولوں کے نذرانے دیے جاتے رہیں گے ۔ ان کی یاد میں ملک بھر میں موم بتیاں جلتی رہیں گی اور یہ المناک سانحہ ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں تازہ رہے گا ۔ لیکن پیارے قارئین ! ہمیں بھی ایمانداری سے اپنا تجزیہ کرنا ہوگا کہ ہم نے 16 دسمبر 1971 کے سقوط ڈھاکہ اور 2014 کے سانحہ اے پی ایس پشاور  سے بحیثیت قوم کیا سبق سیکھا ؟ ہمیں انفرادی طور پر اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا ۔ 

کیا ان دو سیاہ واقعات کے بعد بحیثیت قوم ہم اتحاد پر قائم ہیں ؟کیا ہم لسانی ، نسلی ، علاقائی ، صوبائی ، سیاسی یا فرقہ وارانہ تھا تعصبات سے آزاد ہیں ؟  کیا ہم کسی سانحہ کے رونما ہونے پر ہی متحد ہوتے ہیں اور وہ بھی شاید چند دنوں کے لیے ؟ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو شاید ہمیں ابھی ایک قوم بننے کے لیے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے ۔ ہم آ ج بھی پنجابی ،  سندھی ،  بلوچی ،  سرحدی اور  کشمیری جیسے قوم پرست طبقات میں بٹے ہوئے ہیں ۔ سماجی طور پر ہم نے خود کو برادری ازم تک محدود کر ڈالا ہے ۔ آپ اخبارات میں چھپنے والی علاقائی خبروں کا موازنہ کریں ۔ ہماری سوچ گلی محلوں  کے جھگڑوں تک محدود رہ گئی ہے ۔ ہم چھوٹی چھوٹی بات پر باہم دست و گریبان ہوتے ہیں حتی کہ ایک دوسرے کی جان تک لے لیتے ہیں ۔ اور اس بدمعاشی کا خمیازہ ہمارے گھر کی گھروں کی خواتین و بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ ہم میں عدم برداشت کا رویہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ ہم  حب الوطنی سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جا رہے ہیں اور یہی غلط روش ہمارے دشمن کو ہمارے بارے میں قبل از وقت ہوشیار کر رہی ہے ۔ بچوں کے جھگڑے ہوں یا لین دین کے معاملات ، گھریلو جھگڑے ہوں یا روزگار کی پریشانی ، ہم نے ہر معاملے کو طیش میں حل کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔  ہم خود کو طرم خان سمجھتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بے معنی گروہوں میں منقسم ہو چکے ہیں ۔ ہماری یہی متعصبانہ روش ہمارے قومی مزاج میں سرائیت کرچکی ہے ۔ ہم بحثیت مجموعی خودپسندی جیسے زہر کے عادی ہوچکے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ دشمن ہمارے انداز و اطوار کا مکمل مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں زچ کرتا ہے ۔ ایسی حرکات سے ہم بحثیت قوم زوال پذیری کی جانب گامزن ہیں جبکہ ہمارا دین اسلام ارتقا پسندی کو پسند کرتا ہے ۔ پیارے قارئین ! ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ۔ ہمیں سقوط ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس سے سبق سیکھنا ہوگا ۔ خود کو ایک مضبوط اور فولادی قوم بنانا ہوگا ۔ بطور تاریخ کا ایک طالب علم میں نے سیکھا ہے کے بطور محب وطن پاکستانی ہمیں اپنی ریاست ،  مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی فورسز سمیت ہر ادارے پہ بہر صورت اعتماد قائم رکھنا ہے ۔ یہی ہماری سرحدوں کے محافظ ہیں اور قومی سلامتی کے ضامن ہیں ۔ 

جب تک ہم اپنے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان  کی نظریاتی اساس کو قائم رکھیں گے ، آئین پاکستان کا تحفظ کریں گے ، مسلح افواج کے وقار کو ہر صورت یقینی بنائیں گے اور حقیقی جمہوری پارلیمانی نظام کا احترام کریں گے تو تب ہی قائد کے پاکستان کی حقیقی طور پر تکمیل ہوگی ۔ لیکن ہمیں اپنی صفوں میں شامل آستین کے سانپوں کو بے رحمی سے کچل دینا ہوگا ۔ ملکی اداروں پہ لفظی گولہ باری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔  یاد رکھیں ، ہمارے لئے ہمارا ہر ادارہ مقدس  ہے۔ کسی ادارے پہ ہونیوالی تنقید ناقابل معافی ہے ۔  لہذا اٹھیں اور ایک ہو جائیں ۔ ملک دشمن عناصر کی۔ حوصلہ شکنی کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ۔ بطور عوام ، اپنی ریاست سمیت تمام سٹیک ہولڈرز پہ اعتماد قائم رکھیں ۔ اور ملک پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیں۔ کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ انشاء اللہ اگر ایسا ہوا تو آئندہ کبھی بھی وطن عزیز میں سقوط ڈھاکہ اور سانحہ اے پی یس جیسے منحوس واقعات رونماء نہیں ہونگے۔


(اطہر سلطان مغل)



ایک نفیس مضمون---


No comments: