دفتر کی پارکنگ سے موٹرسائیکل چوری

 



ایک متاثرہ شخص کی جانب سے ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے، جس میں انہوں نے اپنے دفتر کی پارکنگ سے موٹرسائیکل چوری ہونے کا ذکر کیا ہے۔

پاکستان میں موٹرسائیکل چوری ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں۔ متاثرہ شخص، زریاب خالد، جو پاکستان کی ایک معروف کمپنی پی ٹی سی ایل میں کام کرتے ہیں، ہمیشہ اپنی موٹرسائیکل کمپنی کی پارکنگ میں کھڑی کرتے ہیں۔ لیکن 24 اکتوبر کو ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ زریاب خالد نے حسبِ معمول اپنی سی ڈی 70 موٹرسائیکل کو دفتر کی پارکنگ میں کھڑا کیا اور کام شروع کیا۔ چند گھنٹوں بعد جب انہوں نے باہر جا کر دیکھا تو موٹرسائیکل غائب تھی۔ تمام پوچھ گچھ کے باوجود موٹرسائیکل کا کوئی سراغ نہ ملا، جس پر وہ شدید پریشان ہوگئے۔

زریاب نے فوری طور پر پولیس ہیلپ لائن پر کال کی اور ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا۔ یہ ان کے ساتھ پہلا واقعہ تھا جب ان کی سرخ رنگ کی سی ڈی-70، جس کی موجودہ قیمت 1,20,000 روپے ہے، چوری ہوگئی۔ یہ موٹرسائیکل 2020 میں رجسٹر ہوئی تھی، اور اس کا رجسٹریشن نمبر GAM-3829 تھا۔ تمام کوششوں کے باوجود کوئی مدد نہ ملنے پر انہوں نے اپنے جاننے والوں سے مدد لینے کی کوشش کی۔

یہ مسئلہ نیا نہیں ہے۔ موٹرسائیکل چوری اور موبائل چوری کے واقعات ہر روز سامنے آتے ہیں اور یہ ورکنگ کلاس افراد کو شدید مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔ ہماری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں عام شہریوں کی مدد میں ناکام نظر آتی ہیں، جبکہ صرف اشرافیہ کو فائدہ پہنچتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق، صرف کراچی میں روزانہ 90 سے زائد موٹرسائیکلیں چوری یا چھینی جاتی ہیں، اور ماہانہ تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ستمبر 2023 میں کراچی میں 4381 موٹرسائیکلیں چوری یا چھینی گئیں۔ دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں، جہاں پیشہ ور چور صرف 30 سیکنڈ میں پارک شدہ اور لاک شدہ بائیکس لے اڑتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز بھی موجود ہیں، جن میں دکھایا گیا ہے کہ یہ چور کس طرح بڑی آسانی سے موٹرسائیکلیں چوری کرتے ہیں۔

No comments: