لاہور میں عالمی کانفرنس کا انعقاد: اقبال اکیڈمی اور ای سی او کلچرل انسٹی ٹیوٹ کا تعاون

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب (چیئر مین مسلم انسٹی ٹیوٹ) "تین روزہ بین الاقوامی اقبال کانفرنس" میں شرکت کے دوران- 

کانفرنس کا انعقاد اقبال اکیڈمی (پاکستان )    اور ای سی او کلچرل انسٹی ٹیوٹ (تہران) کے تعاون سے لاہور میں کیا گیا تھا -کانفرنس میں افغانستان ، ایران ، بنگلہ دیش ، برطانیہ،  تاجکستان، ترکی، سپین ،کویت ،  مقبوضہ جموں و کشمیر اور پاکستان بھر سے محققین اور سکالرز نے شرکت کی – اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی کی کاوشوں نے اس عالمی کانفرنس کے انعقادمیں اہم کردار کیا۔

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے کانفرنس کے افتتاحی سیشن کی صدارت کی اور خصوصی خطاب کیا -

خطاب کے اہم نکات:

-رومی سے اقبال کا تعلق محض تبصرہ نگار کی حیثیت سے کہیں بڑھ کر ہے ،اقبال نے رومی کے بیان کردہ اوصاف اور تعلیمات کو اپنایا اور یہی حیثیت اقبال کو اپنے عہد کا رومی کہلانے کا اعزاز بخشتی ہے- ہمیں اپنی نوجوان نسل کی تربیت اس نہج پر کرنی چاہیے کہ وہ نہ صرف افکارِ اقبال پہ کام کریں بلکہ اقبال کی فکر و نظریے کو اپنے قلب و باطن میں راسخ کریں اور اس پر عمل پیرا ہوں-

- روایت تسلسل کا تقاضا کرتی ہے -جسے درج ذیل چند مثالوں سے سمجھاجاسکتا ہے:

۔تھیلس (چھٹی صدی ق م) سے لے کر ارسطو (384-322 ق م) تک  ہم بغیر کسی تعطل کے  فلاسفہ آتے رہے-

۔اسلامی فقہ کی روایت میں امام اعظم ابوحنیفہؒ (150ھ)، امام مالکؒ (179ھ)، امام شافعیؒ (204ھ) اور امام احمد بن حنبل ؒ (241ھ) نے 90 سال کے عرصے میں چار بڑے فقہی مذہب ترتیب دیئے –

۔ جابر ابن حیان (199ھ) سے لے کر ابن خلدون (808ھ) تک مسلم سائنسدان مسلسل دنیا کے نقشے پر ابھرتے رہے اور ہمیں کہیں بھی ان کے درمیان محض 20 سال سے زیادہ کی خلیج بھی نہیں ملتی –

۔فرانسس بیکن (1626ء) سے  لیکر عصرِ حاضر تک فلاسفہ نے تسلسل سے فلسفہ کی روایت کو آگے بڑھایا ہے-

۔ تاہم علامہ محمد اقبال کی وفات (قریباً نوے سال قبل) کے بعد سے دنیا میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جیسے جنگِ عظیم دوئم، سرد جنگ، نیا ورلڈ آرڈر، پسِ جدیدیت، بلیک ہول، انٹرنیٹ، مصنوعی ذہانت، سوشل میڈیا اور کووڈ-19 کے بعد کی صورتحال۔ لیکن ان سب کے باوجود ہماری روایت میں ایک بہت بڑا خلیج ہے  جو قریباً ایک صدی کے قریب وقت جتنا وسیع ہے- یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ہماری روایت میں اتنی بڑی خلیج کو کون اور کیسے پُر کرے گا؟

 (بیوروچیف راشد گورائیہ )


No comments: