بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے کیسز اور سزائے موت

 



 معصوم پھول اور حیوانیت کا ننگا رقص کرنے والوں کو سرعام پھندہ سے لٹکایا جاے ۔کیونکہ جیلوں میں حرام کاری عام ھے

ڈاکٹر مرزا ایم بی قمر سینر صحافی

 بچوں کو پھولوں سے مشابہت دی جاتی ہے۔ مگر شہروں میں پھرنے والے درندے، بدکردار، غلیظ لوگ ان پھولوں کو توڑنے اور مسلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ بچوں بچیوں سے جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک لحمہ فکریہ ہے۔

اسکول، جہاں بچے تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ مگر وہاں بھی کچھ استاد شیطانوں کے روپ میں موجود ہوتے ہیں۔ چوکیدار سے لے کر اسکول پرنسپل تک کوئی نہ کوئی ان پھولوں کو روند رہا ہوتا ہے۔ گوجرانوالہ کے گورنمنٹ نان فارمل ایجوکیشن اسکول میں کینٹین والے کی بچیوں سے زیادتی اور جعفر آباد میں نجی اسکول کے ہاسٹل میں اسکول پرنسپل کے بچوں سے بدفعلی کے شرمناک کیسز سامنے آئے۔ بچوں اور بچیوں کا ریپ کیا گیا اور ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے یہ شیطانی عمل کئی بار کیا گیا۔ متاثرہ بچوں کا بچپن تو کھو ہی گیا۔ لیکن انہیں دنیا کا سامنا کرنے، ڈر اور خوف سے نکلنے میں بھی کئی سال لگیں گے۔

بچے باہر محفوظ نہیں، اس فکر کے ساتھ انتہائی تشویشناک ہے بات یہ ہے کہ بچے اب اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔ کچھ بچوں کا جنسی استحصال تو خود اُن کے اپنے گھروں سے شروع ہوتا ہے۔ کتنی ہی ایسی خبریں سامنے آ رہی ہوتی ہیں کہ محرم رشتے نے چار سالہ یا آٹھ سالہ بچی یا بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اب دینی مدارس کی آڑ میں بچوں و بچیوں کو زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ھے ۔ کبھی قریبی رشتے داروں میں سے کوئی پیار اور لاڈ کے نام پر بچے یا بچی کا جنسی استحصال کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے گھروں میں بچوں کو اس موضوع پر آگاہی دینا یا سمجھانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو خود والدین ہی اس بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کو آگاہی کی ضرورت تو ہے ہی اس سے زیادہ والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ مسئلے کی حساسیت کو سمجھیں۔ خود بھی اپنی ذمے داریوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کو آگاہی دیں۔ اسکولوں میں بھی بچوں کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے بچے پُر اعتماد ہو کر صحیح اور غلط پر آواز اٹھا سکیں گے۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی انسانی غیرسرکاری تنظیم کے مطابق رواں برس کے ابتدائی چھ مہینوں میں ملک بھر میں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے 862 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

بچوں سے جنسی زیادتی اور استحصال کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنانا ہی کافی نہیں۔ جب تک ملوث ملزمان کو بغیر کسی رعایت کے سخت سے سخت سزا نہ دی جائے۔ اسکول، مدرسوں میں سخت نگرانی رکھیں تعلیمی نصاب میں آگاہی کے لیے چیپٹر شامل کیے جائیں۔ قوانین پر سختی سے عملدرآمد، تعلیمی نصاب میں آگاہی، گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ سے متعلق بچوں کو تربیت اور والدین کی توجہ سے بڑھتے کیسز کو روکا جا سکتا ہے۔ ایسے بدکردار حرامی ملزمان کو سرعام عوام کے سامنے پھندوں کا جھولا دیا جاے ۔ لیکن ھم قانون پر اعتماد کرکے جیل بھیجتے ھے ۔
مگر جیلوں میں پہلے ھی قوم لوط کا فعل زورو شور سے جاری ھے ۔ حرام کاری میں پکڑے گے اور جیلوں میں پھر حرام کاری کیلیے سرعام مواقع ملنے سے ھم کیا کرسکتے ھے ۔۔  ???

ڈاکٹر مرزا ایم بی قمر سینر صحافی   ---

ایک نفیس مضمون---


Image taken from freepik.com

No comments: