بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے کیسز اور سزائے موت
معصوم پھول اور حیوانیت کا ننگا رقص کرنے والوں کو سرعام پھندہ سے لٹکایا جاے ۔کیونکہ جیلوں میں حرام کاری عام ھے
ڈاکٹر مرزا ایم بی قمر سینر صحافی
بچوں کو پھولوں سے مشابہت دی جاتی ہے۔ مگر شہروں میں پھرنے والے درندے، بدکردار، غلیظ لوگ ان پھولوں کو توڑنے اور مسلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ بچوں بچیوں سے جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک لحمہ فکریہ ہے۔
بچے باہر محفوظ نہیں، اس فکر کے ساتھ انتہائی تشویشناک ہے بات یہ ہے کہ بچے اب اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔ کچھ بچوں کا جنسی استحصال تو خود اُن کے اپنے گھروں سے شروع ہوتا ہے۔ کتنی ہی ایسی خبریں سامنے آ رہی ہوتی ہیں کہ محرم رشتے نے چار سالہ یا آٹھ سالہ بچی یا بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اب دینی مدارس کی آڑ میں بچوں و بچیوں کو زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ھے ۔ کبھی قریبی رشتے داروں میں سے کوئی پیار اور لاڈ کے نام پر بچے یا بچی کا جنسی استحصال کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے گھروں میں بچوں کو اس موضوع پر آگاہی دینا یا سمجھانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو خود والدین ہی اس بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کو آگاہی کی ضرورت تو ہے ہی اس سے زیادہ والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ مسئلے کی حساسیت کو سمجھیں۔ خود بھی اپنی ذمے داریوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کو آگاہی دیں۔ اسکولوں میں بھی بچوں کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے بچے پُر اعتماد ہو کر صحیح اور غلط پر آواز اٹھا سکیں گے۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی انسانی غیرسرکاری تنظیم کے مطابق رواں برس کے ابتدائی چھ مہینوں میں ملک بھر میں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے 862 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر مرزا ایم بی قمر سینر صحافی ---
ایک نفیس مضمون---
Image taken from freepik.com
No comments: