شادی کی دعوتوں میں کھانا پلیٹ میں اتنا ڈالیں جتنا کھا سکیں --- عبدالوحیدگورائیہ
ہماری معاشرت میں کھانے کے معاملات میں غیر ضروری اسراف ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ خاص طور پر شادی کی دعوتوں میں، یہ رجحان بہت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ اس مضمون میں کھانے کے ضیاع پر بات کرتے ہوئے ہمیں اپنی اخلاقی اور سماجی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
ہمارے رویے اور عادات
ہم اپنے پیسوں سے گوشت کھائیں تو گوشت کے ساتھ نرم ہڈی بھی چبا جاتے ہیں۔ آئس کریم کھائیں تو اس کا ڈھکن بھی چاٹ لیتے ہیں، اور جوس پئیں تو اس وقت تک پیتے ہیں جب ڈبے سے خڑ خڑ کی آواز نکلتی ہے۔ مگر جب کسی کی شادی میں کھانا کھاتے ہیں، تو آدھے سے زیادہ کھانا جھوٹا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ بھی حکمرانوں کا قصور ہے کیا؟
سماجی ذمہ داریوں کا احساس
ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ کھانا کسی کی محنت اور کمائی سے خریدا گیا ہوتا ہے، اور اسے ضائع کرنا اخلاقی زوال کی نشانی ہے۔ اپنے رویوں میں تبدیلی لا کر ہم معاشرتی سطح پر مثبت فرق پیدا کر سکتے ہیں۔ اپنی پلیٹ میں اتنا ہی کھانا ڈالیں جتنا واقعی کھانا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ کسی کی روزی ہے۔
تبدیلی کی ضرورت
ہمارے اسلاف کی روایات میں کھانے کو ضائع کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ آج ہمیں چاہیے کہ ہم دوبارہ اس روایت کو زندہ کریں اور معاشرتی بھلائی کے لیے بہتر مثال قائم کریں۔ شادیوں اور دعوتوں میں اپنی پلیٹ میں ضرورت کے مطابق کھانا ڈالنا نہ صرف اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ یہ معاشرتی بھلائی کا بھی ایک حصہ ہے۔
سوچنے کا لمحہ
ذرا غور کیجیے کہ ہم چھوٹی چھوٹی عادات میں تبدیلی لا کر کیسے معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم کھانے کے ضیاع کو روکنے، احترام اور دوسروں کا خیال رکھنے جیسی چھوٹی باتوں کو معمول بنا لیں تو نہا صرف ہم اپنی زندگی میں سکون محسوس کریں گے بلکہ یہ تبدیلی دوسروں کو بھی متاثر کرے گی۔ ہر شخص اگر اپنی سطح پر کوشش کرے تو مجموعی طور پر یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں معاشرتی رویوں میں بڑے فرق کا باعث بن سکتی ہیں۔
طالب دعا عبدالوحید گورائیہ
ایک نفیس مضمون---
No comments: