ذیابیطس سے بچاؤ کا عالمی دن: پاکستان میں بڑھتے ہوئے مریضوں کے لیے آگاہی کا وقت



ذیابیطس کا مرض اپنی پیچیدگی کے اعتبار سے دیگر امراض کے مقابلے میں زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 14 نومبر کو ذیابیطس سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی 30.8 فیصد آبادی، ذیابیطس یا شوگر میں مبتلا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پرنسپل گوجرانوالہ میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر اقبال حسین ڈوگر نے ذیابیطس کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ سیمینار کے بعد واک کی قیادت کرتے ہوئے شرکاء سے خطاب کے دوران کیا۔ ایم ایس ڈاکٹر ارشاد اللہ گورایہ، پروفیسر ڈاکٹر ظفر، ڈاکٹر عاصم، ڈاکٹر عمر شہباز و دیگر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے سیمینار اور واک میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت 3 کروڑ سے زائد مریضوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ واضح رہے کہ 14 نومبر فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش بھی ہے جنہوں نے 1922 میں چارلس بیسٹ کے ساتھ مل کر انسولین ایجاد کی تھی۔ 14 نومبر کے دن اس عظیم ماہر طب کو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے مگر اس دن کا بنیادی مقصد ذیابیطس کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) نے دنیا بھر میں پہلی بار شوگر کا عالمی دن 1991 کو منایا تھا، جبکہ 2006 میں اقوام متحدہ نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے 14 نومبر کو شوگر کا عالمی دن قرار دیا تھا۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان میں بھی ذیابیطس کا مرض پھیل رہا ہے۔ موٹاپے کے شکار افراد میں ذیابیطس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بیماری ایک خاموش قاتل ہے۔ مکمل پرہیز اور چہل قدمی اور ورزش سے ہی اس مرض کے خلاف جنگ کی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی بیماری کا بروقت علاج اور اس کی پیشرفت کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اپنی خوراک کا دھیان رکھیں، متوازن غذا کا استعمال کریں اور ورزش کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں۔ اس عالمی دن کے موقع پر عوام میں آگاہی اور اس بیماری سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں آگاہی پھیلانا وقت کی ضرورت ہے تاکہ ہم ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے کیسز کو روک سکیں اور ایک صحت مند معاشرہ قائم کر سکیں۔

تحصیل رپورٹر  محمد اکرم مہر

No comments: