فرسودہ روایات کو بدلو۔ خیرات و ایصالِ ثواب کی حد تو ٹھیک ہے۔ لیکن یہ کیا طریقہ ہے کہ جنازے پر بھی جاؤ تو "روٹی کھا کے آنا؟"
میت کے بعد کھانے کی رسومات: ایک تلخ حقیقت
میت کاندھوں پہ بعد میں اٹھتی ہے۔ دیگ میں چمچے پہلے کھڑک جاتے ہیں۔ لواحقین کی دھاڑیں کم نہیں ہوتیں کہ "مصالحہ پھڑا اوئے" کی صدائیں بلند ہو جاتی ہیں۔ قبر پر پھول سجتے نہیں کہ کھانے کے برتن سج جاتے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو خشک نہیں ہو پاتے کہ عزیز و اقارب کے لہجے پہلے ہی خشک ہو جاتے ہیں۔۔۔ "چاولوں میں بوٹیاں بہت کم ہیں۔ فلاں نے روٹی دی تھی تو کیا غریب تھے جو دو کلو گوشت اور ڈال دیتے۔"
مرنے والے کی یاد یا دعوت؟
مرنے والا تو چلا جاتا ہے۔ لیکن یہ کیسا رواج ہے کہ جنازہ پڑھنے کے لیے آنے والے اس کی یاد میں بوٹیوں کو چَک مارتے دیگی کھانے کی لذت کے منتظر ہوتے ہیں؟ یہ عجیب بات ہے کہ ہم مرنے والے کی روح کو سکون دینے کی بجائے اس کے جنازے کے بعد کھانے پینے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہم نے موت کو روتے ہوئے اور دعاؤں کے ساتھ یاد کرنے کے بجائے اسے ایک دعوت سمجھ لیا ہے جہاں کھانے کا معیار اور مقدار اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔
روایات کو بدلنے کی ضرورت
کیوں نہ ہم اپنی روایات کو بدل کر اس وقت کو حقیقت میں مرنے والے کے لیے دعاؤں اور صدقے کا وقت بنائیں؟ فرسودہ روایات کو بدلو۔ خیرات و ایصالِ ثواب کی حد تو ٹھیک ہے۔ لیکن یہ کیا طریقہ ہے کہ جنازے پر بھی جاؤ تو "روٹی کھا کے آنا؟"
دور سے آئے ہوئے لوگ اور کھانے کا بندوبست
قرب و جوار کی تو بات ہی نہ کریں۔ دور سے آئے ہوؤں کو بھی چاہیے کہ زیادہ بھوک لگی ہے تو کسی ہوٹل سے کھا لیا کریں۔ کیا ضرورت ہے کہ مردہ کے بعد اس طرح کی رسوم جاری رکھی جائیں؟ اس طرح کی رسومات نہ صرف غم کی شدت کو کم کر دیتی ہیں بلکہ ہم انسانوں کے اخلاقی معیار کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
اللہ کی رضا اور اصل مقصد
ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ہمارا اصل مقصد اللہ کی رضا اور اس کی عبادات ہیں، نہ کہ کھانے پینے کی رسومات میں پڑنا۔
روایات کو بدلنے کا پیغام
خوشی، غمی ہر انسان کے ساتھ ہے۔ لیکن روایات کو بدلیں۔ فوتگی پر کھانے کی رسومات کو بند کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔
تحریر
عبدالوحید گورائیہ سلطانی رسول نگری
03007415719
ایک نفیس مضمون ---
No comments: